You are currently viewing سلطان محمد ثانی: قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا

سلطان محمد ثانی: قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا

سلطان محمد ثانی: قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا

نوٹ: یہ تحریر پہلی بار مئی 2018 میں شائع کی گئی جسے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

29 مئی 1453: رات کا ڈیڑھ بجا ہے۔ دنیا کے ایک قدیم اور عظیم شہر کی فصیلوں اور گنبدوں پر سے 19ویں قمری تاریخ کا زرد چاند تیزی سے مغرب کی طرف دوڑا جا رہا ہے جیسے اسے کسی شدید خطرے کا اندیشہ ہے۔

اس زوال آمادہ چاند کی ملگجی روشنی میں دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ شہر کی فصیلوں کے باہر فوجوں کے پرے منظم مستقل مزاجی سے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کے دل میں احساس ہے کہ وہ تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔

یہ شہر قسطنطنیہ (موجودہ نام: استنبول) ہے اور فصیلوں کے باہر عثمانی فوج آخری ہلہ بولنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عثمانی توپوں کو شہر پناہ پر گولے برساتے ہوئے 47 دن گزر چکے ہیں۔ کمانڈروں نے خاص طور پر تین مقامات پر گولہ باری مرکوز رکھ کر فصیل کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

21 سالہ عثمانی سلطان محمد ثانی غیر متوقع طور پر اپنی فوج کے اگلے مورچوں پر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حتمی یلغار فصیل کے ’میسو ٹیکیون‘ کہلانے والے وسطی حصے سے کی جائے گی جس میں کم از کم نو شگاف پڑ چکے ہیں اور خندق کا بڑا حصہ پاٹ دیا گیا ہے۔

سر پر بھاری پگڑ باندھے اور طلائی خلعت میں ملبوس سلطان نے اپنے سپاہیوں کو ترکی زبان میں مخاطب کیا: ’میرے دوستوں اور بچو، آگے بڑھو، اپنے آپ کو ثابت کرنے کا لمحہ آ گیا ہے!‘

اس کے ساتھ ہی نقاروں، قرنوں، طبلوں اور بگلوں کے شور نے رات کی خاموشی کو تار تار کر دیا، لیکن اس کان پھاڑتے شور میں بھی عثمانی دستوں کے فلک شگاف نعرے صاف سنائی دیے جا سکتے تھے جنھوں نے فصیل کے کمزور حصوں پر ہلہ بول دیا۔ ایک طرف خشکی سے اور دوسری طرف سے سمندر میں بحری جہازوں پر نصب توپوں کے دہانوں نے آگ برسانا شروع کر دی۔

بازنطینی سپاہی اس حملے کے لیے فصیلوں پر تیار کھڑے تھے۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ ماہ کے محاصرے نے ان کے حوصلے پست اور اعصاب شکستہ کر دیے تھے۔

بہت شہری بھی مدد کے لیے فصیلوں پر آ پہنچے اور پتھر اٹھا اٹھا کر کے نیچے اکٹھا ہونے والے حملہ آوروں پر پھینکنا شروع کر دیے۔ دوسرے اپنے اپنے قریبی چرچ کی طرف دوڑے اور گڑگڑا گڑگڑا کر مناجاتیں شروع کر دیں۔ پادریوں نے شہر کے متعدد چرچوں کی گھنٹیاں پوری طاقت سے بجانا شروع کر دیں جن کی ٹناٹن نے ان لوگوں کو بھی جگا دیا جو ابھی تک سو رہے تھے۔

شہر کی گلیوں میں لڑائی کا ایک منظر

،تصویر کا ذریعہTheophilos Hatzimihai

ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی اپنے صدیوں پرانے اختلاف بھلا کر ایک ہو گئے اور ان کی بڑی تعداد شہر کے سب سے بڑے اور مقدس کلیسا ہاجیہ صوفیہ میں اکٹھی ہو گئی۔

دفاعی فوج نے جانفشانی سے عثمانیوں کی یلغار روکنے کی کوشش کی۔ لیکن اطالوی طبیب نکولو باربیرو جو اس دن شہر میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جانثاری دستے ’بےجگر شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔‘

روشنی پھیلنے تک ترک سپاہی فصیل کے اوپر پہنچ گئے۔ اس دوران اکثر دفاعی فوجی مارے جا چکے تھے اور ان کا سپہ سالار جیووانی جسٹینیانی شدید زخمی ہو کر میدانِ جنگ سے باہر ہو چکا تھا۔

جب مشرق سے سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ ایک ترک سپاہی کرکوپورتا دروازے کے اوپر نصب بازنطینی پرچم اتار کر اس کی جگہ عثمانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔

سلطان محمد سفید گھوڑے پر اپنے وزرا اور عمائد کے ہمراہ ہاجیہ صوفیہ پہنچے۔ صدر دروازے کے قریب پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترے اور گلی سے ایک مٹھی خاک لے کر اپنی پگڑی پر ڈال دی۔ ان کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

مسلمان سات سو سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔

ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔

1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔

شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ ’تاریک دور‘ سے گزر رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصل یونانی زبان کے نسخے۔

ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔

سلطان محمد ثانی قسطنطنیہ میں داخل ہونے کے بعد

،تصویر کا ذریعہFausto Zonaro

،تصویر کا کیپشنسلطان محمد ثانی قسطنطنیہ میں داخل ہونے کے بعد

تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:

بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت

(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)

Leave a Reply