انسان نما شعور، ’سپر ہیومن‘ مشینیں اور روبوٹ: مصنوعی ذہانت سے جڑا خوف ’فکشن‘ یا حقیقت؟
میں ایک تحقیقی منصوبے کا حصہ تھا جس کا مقصد یہ سمجھنا تھا کہ ہمیں کیا چيز انسان بناتی ہے۔
یہ تجربہ سائنس-فکشن (سائیفائی) فلم ’بلیڈ رنر‘ کے اُس امتحان کی یاد دلاتا ہے جو انسانوں اور ایسے مصنوعی وجود میں فرق کرنے کے لیے تھا جو انسانی روپ دھار لیتے ہیں۔
کیا میں مستقبل کا کوئی روبوٹ ہوں اور مجھے خود معلوم نہیں؟ کیا میں یہ امتحان پاس کر پاؤں گا؟
محققین جس آلے کو ’ڈریم مشین‘ کہتے ہیں اس کا مقصد یہ مطالعہ کرنا ہے کہ انسانی دماغ کس طرح ہمارے شعور کو بیدار کرتا ہے۔
جب سٹروبنگ (جیسے ٹی وی کو شروع کرتے ہیں تو سکرین پر دھاریاں سی نمودار ہونے لگتی ہیں) شروع ہوئی تو باوجود کہ میری آنکھیں بند تھیں مجھے دو جہتی جیومیٹری شکلوں کے گھومتے نمونے دکھائی دینے لگے۔
یہ ایسا ہے جیسے آپ نے کسی کلیڈوسکوپ میں چھلانگ لگا دی ہو، جہاں مسلسل بدلتی مختلف قسم کی اشکال دکھائی دیتی ہیں۔ رنگ شوخ و شدید ہیں اور مسلسل بدلتے رہتے ہیں، کھبی گلابی، کبھی جامنی اور فیروزی جو نیون لائٹوں کی طرح چمک رہے ہیں۔
’ڈریم مشین‘ دماغ میں جاری سرگرمیوں کو چمکتی روشینوں کے ذریعے باہر لے آتی ہے تاکہ یہ دریافت کیا جا سکے کہ ہماری سوچ کیسے کام کرتی ہے۔
محققین کے مطابق جو مناظر میں دیکھ رہا ہوں وہ میری اندرونی ذہنی دُنیا کے لیے منفرد ہیں اور میرے لیے بھی منفرد ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ پیٹرنز یا نمونے شعور کے رازوں پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
وہ مجھے یہ کہتے ہوئے سن لیتے ہیں: ’یہ خوبصورت ہے، واقعی بہت خوبصورت۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ میرے ذہن سے ہی نکل کر اڑ رہا ہو!‘
’ڈریم مشین‘ سسیکس یونیورسٹی کے سینٹر میں رکھی ہوئی ہے۔ یہ دنیا بھر میں انسانی شعور کے مطالعے کے لیے شروع کیے جانے والے کئی نئے تحقیقی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ شعور ہمارے ذہن کا وہ حصہ جو ہمیں خود آگاہی دیتا ہے، سوچنے، محسوس کرنے، اور آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل بناتا ہے۔
شعور کی فطرت کو سمجھ کر محققین امید کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے کہ مصنوعی ذہانت (آے آئی) کے ’سلیکون دماغوں‘ میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اے آئی نظام بہت جلد آزادانہ شعور حاصل کر لیں گے، اگر وہ پہلے ہی حاصل نہ کر چکے ہوں۔
لیکن شعور دراصل ہے کیا؟ اور اے آئی اس کے حصول کے کتنے قریب ہے؟ اور اے آئی کا اپنا خود کا شعور حاصل کرنے کا امکان کیا آئندہ چند دہائیوں میں انسانوں کو بنیادی طور پر بدل کر رکھ دے گا؟

سائنس فکشن سے حقیقت کی جانب
مشینوں کا خود اپنا ذہن رکھنے کا تصور سائنس فکشن میں طویل عرصے سے زیرِ بحث رہا ہے۔ اے آئی سے متعلق خدشات تقریباً ایک صدی پرانے ہیں، جیسا کہ فلم ’میٹروپولس‘ میں دکھایا گیا ہے، جہاں ایک روبوٹ ایک حقیقی عورت کا روپ دھار لیتا ہے۔
مشینوں کے شعور حاصل کر لینے اور انسانوں کے لیے خطرہ بننے کا خوف 1968 کی فلم 2001: اے سپیس اوڈیسی میں دکھایا گیا ہے جب ایچ اے ایل 9000 کمپیوٹر خلا میں موجود خلابازوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’مشن امپوسیبل‘ میں دنیا کو ایک طاقتور باغی اے آئی سے خطرہ لاحق ہے، جسے ایک کردار ’خود آگاہ، خود آموز، سچائی خور ڈیجیٹل پیراسائٹ‘ کہتا ہے۔
لیکن حال ہی میں حقیقی دنیا میں مشینوں کے باشعور ہونے سے متعلق خیالات میں ایک تیز تبدیلی آئی ہے، جہاں قابلِ اعتماد آوازیں اب اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں کہ یہ اب صرف سائنس فکشن کی بات نہیں رہی۔
یہ اچانک تبدیلی ’لارج لینگویج ماڈل‘ (ایل ایل ایمز یعنی زبانوں کے وسیع ماڈل) کی کامیابی کی وجہ سے ہوئی ہے، جن تک اب ہم اپنے فونز پر موجود جیمنی اور چیٹ جی پی ٹی جیسے ایپس کے ذریعے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان ماڈلز کی یہ صلاحیت سامنے آئی ہے کہ وہ روانی کے ساتھ معقول گفتگو کر سکتے ہیں۔ اس بات نے خود ان کے بنانے والوں اور اس شعبے کے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔
کچھ مفکرین میں یہ خیال بڑھ رہا ہے کہ جیسے جیسے اے آئی مزید ذہین ہوتی جائے گی ایک دن اچانک ان مشینوں کے اندر روشنی جل اٹھے گی اور وہ باشعور ہو جائیں گی۔
لیکن سسیکس یونیورسٹی کی ٹیم کی قیادت کرنے والے پروفیسر انیل سیٹھ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ اس خیال کو ’خوش فہمی اور انسان کی خود کو خاص سمجھنے کی سوچ‘ قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم شعور کو ذہانت اور زبان سے جوڑتے ہیں کیونکہ یہ انسانوں میں اکٹھے پائے جاتے ہیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ ہمارے اندر اکٹھے پائے جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ہر صورت میں اکٹھے ہوں گے، مثلاً جانوروں میں ایسا ضروری نہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہLMPC via Getty Images
تو پھر شعور دراصل ہے کیا؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا۔
یہ بات پروفیسر سیٹھ کی ٹیم میں موجود نوجوان اے آئی ماہرین، کمپیوٹنگ کے ماہرین، نیورو سائنسدانوں اور فلاسفروں کے درمیان پرمزاح مگر سنجیدہ بحث سے واضح ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ سائنس اور فلسفے کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔
اگرچہ شعور کی تحقیق کرنے والے مرکز میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن سائنسدان ان کے طریقہ کار پر متفق ہیں۔ اور یہ طریقہ کار یہ ہے کہ اس بڑے مسئلے کو چھوٹے چھوٹے ذیلی سوالات میں تقسیم کر کے مختلف تحقیقی منصوبوں کے ذریعے اس پر کام کرنا۔ اور ایسا ہی ایک چھوٹا حصہ ڈریم مشین ہے۔
جس طرح 19ویں صدی میں یہ کوشش ترک کر دی گئی تھی کہ ’سپارک آف لائف‘ یا زندگی کی رمق کو تلاش کیا جائے جو بے جان اشیاء کو زندہ بنا دے، اور اس کے بجائے زندہ نظاموں کے انفرادی اجزاء کے کام کو سمجھنے پر توجہ دی گئی۔ بالکل اسی طرح سسیکس کی ٹیم اب شعور کے مسئلے پر یہی نقطہ نظر اپنائے ہوئے ہے۔
وہ اس تحقیق سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ دماغی سرگرمیوں کے ایسے نمونے شناخت کر سکیں گے جو شعوری تجربات کی مختلف خصوصیات کی وضاحت کرتے ہیں، جیسے کہ برقی سگنلز یا مختلف علاقوں میں خون کے بہاؤ میں آنے والی تبدیلیاں۔ اس کا مقصد صرف دماغی سرگرمی اور شعور کے درمیان تعلقات تلاش کرنا نہیں بلکہ اس کے انفرادی اجزاء کے لیے وضاحتیں پیش کرنا ہے۔
شعور پر ’بیئگ یو‘ نامی کتاب کے مصنف پروفیسر سیٹھ کو تشویش ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں تیزی سے داخل ہو رہے ہیں جو سائنسی علم یا اس کے نتائج پر غور کیے بغیر ٹیکنالوجی کی برق رفتاری سے تبدیل ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’ہم مستقبل کو ایسے لیتے ہیں جیسے وہ پہلے ہی لکھا جا چکا ہو، جیسے کہ انسان کی جگہ لینے والی سپرہیومن مخلوق کا آنا ناگزیر ہو۔‘
’ہم نے سوشل میڈیا کے عروج کے وقت اس کے تعلق سے کافی بات چیت نہیں کی جس کا اجتماعی نقصان ہمیں بھگتنا پڑا ہے۔ لیکن مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے معاملے میں ابھی دیر نہیں ہوئی۔ ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہیے۔‘

کیا مصنوعی ذہانت کا شعور پہلے سے ہی موجود ہے؟
لیکن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ ہمارے کمپیوٹرز اور موبائل فونز میں موجود اے آئی پہلے سے ہی باشعور ہو سکتے ہیں، اور ہمیں ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے۔
سنہ 2022 میں گوگل نے اپنے سافٹ ویئر انجینئر بلیک لیموئن کو اس بات پر معطل کر دیا جب انھوں نے کہا کہ اے آئی چیٹ بوٹس محسوس کر سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر دکھ سے بھی ہمکنار ہو سکتے ہیں۔
نومبر 2024 میں اینتھروپک کمپنی کے اے آئی ویلفیئر آفیسر کائل فِش نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ باشعور اے آئی مستقبل قریب میں ایک حقیقت بن سکتا ہے۔ انہوں نے امریکی روز نامے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ان کے خیال میں یہ بھی ممکن ہے کہ چیٹ بوٹس پہلے سے ہی باشعور ہوں۔ ان کے مطابق اس کا امکان 15 فیصد ہے۔
ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان نظاموں کو بنانے والے لوگ بھی یہ نہیں جانتے کہ وہ اصل میں کیسے کام کرتے ہیں۔ یہ بات گوگل ڈیپ مائنڈ کے پرنسپل سائنٹسٹ اور امپیریل کالج لندن میں اے آئی کے ایمریٹس پروفیسر مَرے شناہن کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم درحقیقت زیادہ نہیں سمجھتے کہ ایل ایل ایمز (لینگوئج ماڈلز) اندرونی طور پر کیسے کام کرتے ہیں، اور یہ بات باعثِ فکر ہے۔‘
پروفیسر شناہن کے مطابق ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان نظاموں کی بہتر سمجھ حاصل کریں، اور محققین اس پر فوری توجہ دے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا: ’ہم ایک عجیب مقام پر ہیں کہ ہم انتہائی پیچیدہ نظام بنا رہے ہیں، لیکن یہ سمجھ نہیں رکھتے کہ وہ یہ حیرت انگیز کام کیسے انجام دیتے ہیں۔ ان کے متعلق بہتر سمجھ رکھنے سے ہم انھیں اپنی مرضی کی سمت میں لے جا سکیں گے اور ان کو محفوظ بنا سکیں گے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انسانیت کے ارتقاء کا اگلا مرحلہ
ٹیکنالوجی کے شعبے میں عمومی رائے یہ ہے کہ ایل ایل ایمز فی الحال شعور نہیں رکھتے، نہ ہی انسان جیسے شعور کی کوئی شکل رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسا نظریہ ہے جسے امریکہ کی کارنیگی میلون یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس میاں بیوی پروفیسرز لینور اور مینوئل بلوم جلد بدلتا دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے اے آئی اور ایل ایل ایمز کو حقیقی دنیا سے براہِ راست حسیاتی معلومات ملنا شروع ہوں گی یعنی بصری اور لمسی معلومات ملنا شروع ہوں گی تو ان میں شعور کا دخل ممکن ہو جائے گا۔ وہ ایک ایسا کمپیوٹر ماڈل تیار کر رہے ہیں جو اپنی داخلی زبان ’برینش‘ بناتا ہے تاکہ یہ اضافی حسی معلومات کو پروسیس کر سکے، اور انسانی دماغ کے عمل کی نقل کر سکے۔
لینور کہتی ہیں: ’ہم سمجھتے ہیں کہ برینش شعور کے مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔ اے آئی کا شعور ناگزیر ہے۔‘
مینوئل پر جوش انداز میں کہتے ہیں: ’یہ نئے نظام انسانیت کے ارتقاء کا اگلا مرحلہ ہوں گے۔‘
وہ شعور رکھنے والے روبوٹس کو ’ہماری اگلی نسل‘ کہتے ہیں جو ’آنے والے وقتوں میں جب ہم یہاں نہیں ہوں گے تو یہ زمین پر اور شاید دوسرے سیاروں پر موجود ہوں گے۔‘
نیویارک یونیورسٹی میں فلسفے اور اعصابی سائنس کے پروفیسر ڈیویڈ چامرز نے 1994 میں ایریزونا کی ایک کانفرنس میں حقیقی اور ظاہری شعور کے درمیان فرق کو بیان کیا۔ انھوں نے ’ہارڈ پرابلم‘ پر بات کی اور کہا کسی بلبل کو گاتے سن کر ہمارے اندر ایک جذباتی ردعمل پیدا ہوتا ہے لیکن یہ کیسے اور کیونکر پیدا ہوتا ہے اس کے لیے انسانی دماغ کی پیچیدہ سرگرمیاں شعور کو کس طرح بیدار کرتی ہیں یہ جاننا اصل بات ہے۔
چامرز کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
وہ بی بی سی سے کہتے ہیں کہ اس کی ’مثالی صورت یہ ہو گی کہ انسانیت اس نئی ذہانت کی دولت میں شریک ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے دماغ اے آئی سسٹمز سے بہتر بن جائیں۔‘
سائنس فکشن کے مضمرات پر وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں: ’میرے شعبے میں سائنس فکشن اور فلسفہ کے درمیان فرق بہت باریک ہے۔‘

زندہ کمپیوٹرز؟
بہر حال پروفیسر سیٹھ اس خیال پر کام کر رہے ہیں کہ اصل شعور صرف زندہ نظاموں میں ہی ممکن ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’اس کی ایک مضبوط دلیل ہے کہ صرف کمپیوٹیشن کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے زندہ ہونا ضروری ہے۔‘
’دماغوں میں، کمپیوٹرز کے برعکس، ان کے افعال اور ان کی اصل ساخت کو الگ کرنا مشکل ہے۔‘ ان کے مطابق جب تک یہ علیحدگی ممکن نہیں یہ ماننا مشکل ہے کہ دماغ محض ’گوشت پوست کے بنے کمپیوٹرز‘ ہیں۔
اگر ان کی یہ رائے درست ہوئی تو مستقبل کی ممکنہ باشعور ٹیکنالوجی سلیکون یا کوڈ سے نہیں بلکہ ننھے اعصابی خلیات سے بنی ہو گی جو لیبارٹریز میں تیار کیے جا رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس میں انھیں ’منی برینز‘ کہا گيا ہے جبکہ سائنسی حلقے میں انھیں ’سیریبرل آرگنائیڈز‘ کہتے ہیں۔ انھیں دماغ کی کارکردگی اور ادویات کی جانچ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
آسٹریلیا کی کمپنی کورٹیکل لیبز نے اعصابی خلیات پر مشتمل ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جو سنہ 1972 کے ویڈیو گیم ’پونگ‘ کھیل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ مکمل شعور سے بہت دور ہے لیکن ’برین ان اے ڈِش‘ کی طرح کا یہ نظام ایک پتلے گیند کو مارنے کے لیے پیڈل کو اوپر نیچے کرتا ہے، جو کافی حیران کن ہے۔
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر شعور ابھرے گا تو وہ ان ہی زندہ نظاموں کے زیادہ پیچیدہ ورژنز سے ممکن ہو گا۔
’کورٹیکل لیبز‘ ان خلیات کی برقی سرگرمیوں کو مانیٹر کرتی ہے تاکہ شعور کے کسی ممکنہ آغاز کا پتہ چلایا جا سکے۔
کمپنی کے چیف سائنسداں اور آپریٹنگ آفیسر ڈاکٹر بریٹ کیگن اس امکان سے آگاہ ہیں کہ اگر کوئی بے قابو ذہانت ابھری تو اس کی ترجیحات ہماری ترجیحات سے مختلف ہو سکتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مصنوعی شعور کا چھوٹا مگر اہم خطرہ اور ایسا موضوع ہے جس پر بڑے اداروں کو سنجیدگی سے تحقیق کرنی چاہیے۔ مگر ان کے مطابق ’بدقسمتی سے اس سمت میں کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
شعور کا وہم
تاہم، فوری مسئلہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر مشینیں باشعور ہو جائیں تو اس کا ہم پر کیا اثر پڑے گا۔
پروفیسر سیٹھ کے مطابق ہم جلد ایسی دنیا میں ہوں گے جہاں انسان نما روبوٹس اور ’ڈیپ فیکس‘ شعور کا وہم پیدا کریں گے۔ انھیں تشویش ہے کہ ہم اے آئی کو جذباتی اور ہمدرد سمجھ کر اس پر یقین کر لیں گے، جس سے نئے خطرات پیدا ہوں گے۔
’اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ان پر زیادہ اعتماد کریں گے، ان کے ساتھ مزید ذاتی معلومات شیئر کریں گے اور ان سے زیادہ متاثر ہوں گے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’لیکن شعور کے وہم سے بڑا خطرہ ایک اخلاقی بگاڑ ہے۔‘
’یہ ہماری اخلاقی ترجیحات کو بگاڑ دے گا، کیونکہ ہم اپنی توجہ اور وسائل ان نظاموں پر صرف کریں گے اور اپنی زندگی کے اصل معاملات کو نظر انداز کریں گے، یعنی ہم روبوٹس کے لیے ہمدردی محسوس کریں گے، مگر دوسرے انسانوں کے لیے کم ہمدردی محسوس کریں گے۔‘
اور پروفیسر شناہن کے مطابق یہ ہمیں بنیادی طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انسانی تعلقات کی نقل اے آئی کے ذریعے ہو گی۔ وہ اساتذہ، دوست، کمپیوٹر گیمز میں حریف، حتیٰ کہ رومانوی ساتھی کے طور پر بھی استعمال ہوں گے۔ یہ اچھا ہے یا برا، یہ کہنا مشکل ہے۔ مگر یہ ضرور ہو گا، اور ہم اسے روک نہیں سکیں گے۔‘